Party Manifesto

PML-F Presents Its Manifesto: A Roadmap for Progress and Prosperity
- Sardar Abdul Rahim
- General Secretary Sindh
- Pakistan Muslim League Functional
PML-F Public Manifesto | Our Vision & Mission
Education
صوبے میں اقراء تعلیمی ایمر جنسی نافذ کی جائے گی پرائمری سطح کے نصاب میں عقیدہ توحید اور ختم نبوت کا مضمون لازمی قرار دیا جائے گا۔ تعلیمی نصاب میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم لازمی طور پر پڑھائی جائے گی۔ گھوسٹ اسکون کا خاتمہ کر کے ہر گاؤں دیہات میں دور جدید کے تقاضوں کے مطابق تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں گے۔ صوبے میں یکساں تعلیمی نظام کا قیام ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ تعلیم کا بجٹ دو گنا کر کے ہر بچے کے لئے تعلیم کا حصول ممکن بنایا جائے گا۔ گھوسٹ اساتذہ کو فارغ کر کے قابل اساتذہ کو میرٹ پر بھرتی کیا جائے گا۔ حکومتی سطح پر مدارس میں طلبہ کو کمپیوٹر اور جدید علوم دینے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ دیسی طلباء کے لیے زرعی تعلیم کے مضامین کو سیکنڈری لیول کے کورس میں شامل کیا جائے گا۔ دیہی علاقوں میں زراعت اور آبپاشی کا مضمون جبکہ شہری علاقوں میں ماحولیات اور توانائی کا مضمون پرائمری تعلیم میں شامل کیا جائے گا۔ صوبائی سطح پر تمام تعلیمی اداروں میں یکساں داخلے کی پالیسی رائج کی جائے گی۔ بچیوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو خصوصی و ظائف دیے جائیں کے خصوصی بچوں کے لیے ملک بھر میں تعلقہ سطح پر ا پیشل ایجو کیشن سینٹر ز بنائے جائیں گے۔ صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیش کو ایک از داور خود مختار ادارہ بنایا جائے گا۔ اس میں صوبے بھر کی مانند کی یقینی بنائی جائے گی۔
Health
صوبے کے عوام کو علاج و معالجے کی بہترین سولتوں کی فراہمی کے لیے صحت کا بجٹ دو گا کیا جائے گا۔ صوبے کے ہر ڈویژن میں اسٹیٹ آف دی آرٹ اسپتال بنایا جائے گا جہاں علاج معالجے کی تمام سہولیات میسر ہوں گی۔ پہلے سے موجود اسپتالوں کو اپ گریڈ کر کے ان کی کار کردگی 100 فیصد کی جائے گی۔ جعلی ادویات اور منشیات کی روک تھام کے لیے انسد اور ہشتگردی کا قانون لاگو ہو گا۔ عوام کو معیاری ادویات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ادویہ سازی کے قانون پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔ صوبے کے عوام کے لئے صحت کارڈ کا اجراء کیا جائے گا۔ بڑے شہروں میں موجود سرکاری اسپتالوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ دور دراز دیہی علاقوں میں مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ سینٹرز قائم کیے جائیں گے۔ ذائی قلت کے شکار تھرپارکر اور اچھوت میں نذائی قلت کے خاتمے سے متعلق پروگرام شروع کیے جائیں گے۔ صحت کے شعبے میں کام کرنے والے افراد کی پیسٹی بلڈنگ کے لیے اسکالر شپ پروگرام شروع کیے جائیں گے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتالوں کی استعداد بڑھاتے ہوئے انہیں 200 بستروں تک لے جایا جائے گا۔ تعلقہ اسپتالوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ تباہ حال بنیادی صحت کے مراکز کو بھی اپ گریڈ کیا جائے گا۔ ان بنیادی صحت کے مراکز میں صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔
Economy
کسی بھی ملک کی ترقی کا دار ومدار اس کی معیشت پر منحصر ہوتا ہے پاکستان ایک زرعی ملک ہے ہماری کوشش ہوگی کہ زراعت کے شعبے کی ترقی کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل، گارمنٹس، اسٹیل، فارماسیوٹیکل بلیدر، جوزری محبت ڈیری اور دیگر اہم شعبوں پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ ہم اپنی بر آمدات بڑھاسکیں۔ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کریں گے۔ ٹیکس ریٹ کی شرح میں کمی کر کے مزید سرمایہ کاری کے مواقعوں کو فروغ دیں گے۔ پورے صوبے میں کالج انڈسٹری اور دستکاری کا جال بچھایا جائے گا۔ ماہی پروری کی صنعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے لئے بلا سود قرضہ دیے جائیں گے۔ جس کے ذریعے ماری گیر اپنی کشتیوں کو اپ گریڈ کر کے معیشت میں اپنا کر دار مزید بہتر بناسکیں گے۔ ینے کے صاف پانی کی کمی پوری کرنے کے لیے سندھ کی سالی پٹی پر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے الینیشن پلانٹس نصب کئے جائیں گے ۔ دی سا۔ میر صنعتی فضلے کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے گا۔ کچرے کو ریا نیل کر کے صنعتی استعمال کے قابل بنایا جائے گا۔ مہنگی بجلی اور مواد شیڈ تک سے عوام کو نجات دلانے کے لیے سندھ کے قدرتی ذرائع خصوصا پن چکی کے ذریعے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کریں گے۔ پولٹری ، ڈیری ، شتر مرغ اور فش فارمنگ کے لیے قرضہ اور سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ حکومتی سطح پر قرضہ لینے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ تمام قومی اداروں میں تقرری و تبادلوں میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ ہزاروں بند کار خانوں اور بیار صنعتوں کے لیے خصوصی اسکیمیں دے کر انہیں بحال کیا جائے گا۔ بر آمدی شعبے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
Farmer & Worker Rights
کسانوں اور محنت کشوں کے حقوق سے فریقی اتفاق رائے کے ذریعے ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ کیا جائے گا۔ مزدوروں اور کسانوں کو تمام سوشل سیکیورٹی ، سماجی تحفظ یعنی کام کے دوران زخمی حادثہ یا موت ہو جانے کی صورت میں مکمل معاوضہ ، علاج اور مدد فراہم کی جائے گی۔ محنت کشوں اور کسانوں کے علاج و معالجے کے لیے ہر سطح پر اسپتالوں اور کلینکس میں خصوصی انتظام کیا جائے گا۔ کسانوں اور محنت کشوں کے خاندانوں کو بھی سماجی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ تعلیم ، صحت، جسمانی اور ذہنی نشوونما کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ مزدوروں کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے لیبر قوانین پر سختی سے عملد رآمد کرایا جائے گا۔ صنعتوں کی استعداد بڑھانے کے لیے اجر اور اجیر کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے اقدامات کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
Law & Order
پائیدار ترقی کے لئے امن و امان کا قیام انتہائی ضروری ہے ۔ جی ڈی اے ایک عام شہری کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ جرائم پر جی ڈی اے کی پالیسی زیر و ٹالیرنس پر مبنی ہو گی۔ عوام کا پولیس پر اعتماد بحال کرنے کے لیے ساز کار ماحول پیدا کریں گے۔ تھانوں میں ھر اسکی اور رشوت ستانی سے عوام کو نجات دلائیں گے ۔ شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں قیام امن کے لئے بھر پور کوششیں کی جائیں گی۔ کچے کے ڈاکوؤں کا خاتمہ کیا جائے۔ ایپکس کمیٹی کو مکمل فعال کیا جائے گا۔ اغوابرائے تاوان، ڈکیتی، راہ زنی، اسٹریٹ کرائم اور بھتہ غوری سے عوام کو نجات دلانے کے لیے متعلق ہ ایس ایچ او کو ذاتی طور پر زمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ تمام بڑے شہروں میں چیف پولیس کمشنر عوامی نمائندہ ہو گا۔ ہم کمیونٹی پولیسنگ کو بہتر بنانے، جرائم کی روک تھام کے اقدامات، فوری اور منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنانے کے لیے نظام انصاف کو مضبوط بنانے پر توجہ دیں گے۔ ہم ایک محفوظ اور جامع معاشرے کو فروغ دینے کے لیے جرائم کے متاثرین کی مدد کرنے اور قیدیوں کو کارآمد شہری بنانے کے لیے بحالی کے پروگراموں کو نافذ کریں گے ۔
Agriculture and Irrigation
Women and Children Rights
خواتین اور بچوں کے حقوق کو تعلیم صحت روز گار رہائ اور تفریح وہنر کے یکساں مواقع فراہم کے بائیں گے۔ جبری مشقت ، جسمانی ذہنی اور جنسی تشدد سے متعلق قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے گا۔ جبری نکاح، خلاف مرضی اور کم عمری کے نکاح کارو کاری ونی، جمیز اور قرآن سے شادی جیسی ظالمانہ رسومات پر پابندی عائد کر کے ان قوانین پر مکمل عملدرامد کر وایا جائے گا۔ گھر یلو تشد در کام کی جگہوں پر خوف وہر اس اور اغواء پر سخت سزائیں دی جائیں گی۔ پورے ملک میں پرائمری سطح کی تعلیم میں تدریسی و غیر تدریسی عملہ صرف اور صرف خواتین کے ذمہ ہو گا۔ شعبه صحت، کائی ، ریڈیالوجی، اسکن، امراض اطفال، کمپیوٹر پیتھالوجی، ہینڈی کرافٹس بینکنگ، کھیل، فنون لطیفہ اور آئی ٹی جیسے شعبوں میں خواتین کے لئے مسابقتی مواقع پیدا کیے جائیں گے۔ تیزاب گردی ، باورچی خانے میں لگنے والی آگ جیسے واقعات کی مکمل تحقیق کے بعد سخت سزائیں دی جائیں گی۔ 18 سال سے کم عمر بچوں کو بلا تفریق علاقہ، نسل، مذہب اور قومیت یکساں معاشی سماجی حقوق حاصل ہوں گے۔ بچوں کے جسمانی و ذہنی نشونما کے جدید مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ معاشرے میں بچوں میں کسی قسم کا نوف تناؤ دباؤ، نقد داور نشہ سے محفوظ رکھنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ چائلڈ لیبر باند دلیر کاخاتمہ، اسٹریٹ چائلہ کو حکومت اور سماجی اداروں کی مدد سے پرورش اور تعلیم دی جانے کی۔ جنسی تشدد، پونو گرافی انوار اور جبری مشقت پر سخت ترین سزائیں دی جائیں گی۔ تیم بے سہارا بچوں کے لیے حکومت کی پر نرسریوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ہر بچے کے لیے کم از کم انٹر تک مفت تعللیم لازمی قرار دی جائے گی
Minorities Rights
Environment
ما حولیات جی ڈی اے سمجھتی ہے کہ ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ چین سے بد از ما ہہونے کے لیے جی ڈی اے اولیاتی ماہرین پر مشتل ایک ٹیم تشکیل دے کی اس جو ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق موثر قوانین بنانے اور ان کے نفاذ کے لیے حکومت کا ساتھ دے گی۔ ماحولیاتی آلودگی ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کے لیے حکومت اور عوام کو مل کر جد و جہد کر نا ہو گی۔ قومی ماحولیاتی ایکشن پلان کو فوری نافذ کیا جائے گا۔ درختوں کو کاٹنا جرم قرار دے کر درختوں کو کاٹنے والی مافیا کا قلعہ قمعہ کیا جائے گا۔ آلودگی کے خاتمے کے لیے پرانی گاڑیوں پر پابندی لگائی جانے کی اور درخت اگاؤ دوست بناؤ مهم شروع کی جائے گی۔ قومی ماحولیاتی ایکٹ 1997 پر مکمل عملد رامہ کیا جائے گا۔ ماحولیاتی قوانین کے نفاذ سے متعلق سرکاری اداروں کو مکمل فعال کیا جائے گا۔ نجی شعبے کو ترغیبات کے ذریعے ماحولیاتی ریسرچ اور ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ ہم فوسیل ایندھن پر انحصار کم کرنے کے لیے قابل تجدید توانائی ہو اسے بجلی کا حصول یقینی کے ذرائع جیسے شمسی توانائی اور جو بجلی کو یقینی بنائیں گے۔ ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لیے فضلہ کے انتظام اور ری سائیکلنگ کے اقدامات کو ترجیح دی جائے گی۔